ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ریاستی خبریں / اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں دوسری قومی سماجی علوم کانگریس کا افتتاح۔ پروفیسر بلگرامی و دیگر کے خطابات

اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں دوسری قومی سماجی علوم کانگریس کا افتتاح۔ پروفیسر بلگرامی و دیگر کے خطابات

Thu, 15 Nov 2018 18:06:14  SO Admin   S.O. News Service

حیدرآباد، 15؍ نومبر (پریس نوٹ/ ایس او نیوز) سماجی علوم کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھلتے رہنا چاہیے، اسی میں اس کی بقا ہے۔ انسان کو مطمئن کرنے کے لیے صرف مادی ترقی ناکافی ہے۔ اطمینانِ قلب کے لیے غیر مادی طاقتیں بھی ضروری ہیں۔ جدید معاشرے میں انسان کو کنزیومر (صارف) مانا جاتا ہے لیکن کیا اس سے غربت، تفریق اور افلاس دور ہوگئے؟ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر ایس اے آر بلگرامی، ریٹائرڈ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی نے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں آج منعقدہ دوسری اردو سماجی علوم کانگریس کے افتتاحی اجلاس میں بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

پروفیسر بلگرامی نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب انسان کسی معاملے میں مطمئن نہیں ہوتا تو معاشیات کے نظریہ کے مطابق یہ عدم توازن ہے اور وہ مطمئن ہوجائے تو توازن۔ انہوں نے کہا کہ سماجی علوم پر پڑھی گئی کتابوں، درسی مواد میں سمجھائے گئے موضوعات کو عمومی طور پر اصل زندگی کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور انسانی زندگی میں ان قوانین کو سمجھا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے مختلف مثالیں دے کر بتایا کہ معاشیات کے اصول اصل زندگی پر نافذ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے صدارتی تقریر میں کہا کہ زبان ترسیل کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر کسی زبان میں مختلف علوم کی کتابیں دستیاب نہ ہوں تو لوگ دوسری زبانوں سے استفادہ کرلیتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرپاتے وہ پچھڑ جاتے ہیں۔ اردو زبان میں جہاں ادبی اور اصلاحی کتابوں کی بھرمار ہے وہیں علوم کی کتابوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کمی کو دور کرنے اور اہل اردو کو علوم کے تئیں شعور بیداری کے لیے مانو میں اردو سائنس کانگریس اور اردو سماجی علوم کانگریس کا آغاز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن وسائل کے مساوی تقسیم اور استعمال کا درس دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ جمعہ کے خطبہ میں پڑھی جانے والی آیت جس میں عدل کا ذکر ہے، یہی سماجی علوم کی بنیاد ہے۔

پروفیسر مہتاب منظر، شعبۂ سیاسیات ، جامعہ ملیہ نے کہا کہ اگرچہ نوآبادیاتی نظام ختم ہوچکا ہے لیکن گلوبلائزیشن اور لبرلائیزیشن کے نام پر بڑی طاقتیں اب بھی کمزور عوام کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کے معاملے میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے ۔ حقوق انسانی کا مطلب انسانی تحفظ ہے۔ یہ تحفظ محض جسمانی ہی نہیں بلکہ سماجی بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے خاندان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ خاندان کا تحفظ سماجی علوم کے فروغ میں معاون ہے۔ جمہوریت کے باعث اب عوام حکومت کے محتاج نہیں رہے بلکہ حکومتیں عوام کی محتاج ہوگئی ہیں اور پالیسیاں عوام مرکزی بنائی جارہی ہیں۔انہوں نے خواتین کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ زراعت کے مختلف کاموں میں خواتین کا حصہ 66 فیصد ہے ۔ لیکن اس کے باوجود انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے اور انہیں گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے بچوں کی قرآن کی روشنی میں تعلیم و تربیت معاون ثابت ہوگی۔

پروفیسر نشاط قیصر، شعبۂ سماجیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی نے ہندوستان میں سماجی علوم کی تاریخ اور ارتقا کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ مخصوص ریاستی قومی یکجہتی کا تصور سماجی علوم کا ایک اہم رجحان بن گیا ہے۔ جو تکثیری سماج کے لیے نامناسب ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقیوم، اسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ نظم و نسق عامہ کی کتاب ’’انتظامیہ‘‘ کا رسم اجرا عمل میں آیا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، صدر نشین انتظامیہ کمیٹی نے تعارفی خطاب میں اردو، سماجی علوم اور تعلیم کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے اردو زبان کے آغاز اور ارتقاء پر روشنی ڈالی اور سماجی علوم کی اہمیت اور کانگریس کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ پروفیسر شاہدہ، کنوینر جلسہ نے شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر آمنہ تحسین، انچارج مرکز برائے مطالعاتِ نسواں نے کارروائی چلائی۔ ڈاکٹر عابد معز، شریک کنوینر نے انتظامات میں حصہ لیا۔ عاطف عمران کی تلاوت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
 


Share: